کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 252
أَلَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ کُنْتَ رَجَائَنَا
وَکُنْتَ بِنَا بَرًّا، وَلَمْ تَکُ جَافِیًا
’’اللہ کے رسول! آپ ہماری اُمید تھے، آپ ہم سے اچھا سلوک کرتے تھے، سختی و زیادتی نہیں کرتے تھے۔‘‘
(المُعجم الکبیر للطّبراني : 24/320، ح : 805)
تبصرہ:
سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔
1.عبد اللہ بن لہیعہ جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے،نیز ’’مدلس‘‘ اور’’مختلط‘‘ بھی ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ(463ھ)فرماتے ہیں :
اِبْنُ لَھِیعَۃَ، أَکْثَرُ أَھْلِ الْعِلْمِ لَا یَقْبَلُونَ شَیْئًا مِّنْ حَدِیثِہٖ ۔
’’اکثر اہل علم ابن لہیعہ کی کوئی بھی حدیث قبول نہیں کرتے۔‘‘
(التّمھید لما في الموطّا من المَعاني والأسانید : 12/254)
حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں :
ھُوَ ضَعِیفٌ بِالِْاتِّفَاقِ لِاخْتِلَالِ ضَبْطِہٖ ۔
’’ابن لہیعہ حافظے کی خرابی کی بنا پر بالاتفاق ضعیف ہے۔‘‘
(خُلاصۃ الأحکام : 2/625)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ( 807ھ)کہتے ہیں :