کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 250
﴿وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ﴾(البقرۃ:89)’’اس سے پہلے تویہود اللہ تعالیٰ سے فتح طلب کیا کرتے تھے۔‘‘ محمد! آپ کے طفیل۔‘‘
(المستدرک علی الصّحیحین للحاکم : 2/263، الشّریعۃ للآجرّي : 448، دلائل النُّبُوّۃ للبیھقي : 2/76)
تبصرہ:
جھوٹی روایت ہے۔
عبد الملک بن ہارون بن عنترہ کذاب اور متہم ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ھُوَ مُجْمَعٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ ۔
’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘
(مَجمع الزّوائد : 10/150)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’کذاب‘‘ کہا ہے۔
(تاریخ ابن مَعین بروایۃ الدّوري : 1688)
علامہ جوزجانی رحمہ اللہ ’’دجال‘‘ اور ’’کذاب‘‘ قرار دیتے ہیں ۔
(أحوال الرّجال : 77)
امام بخاری رحمہ اللہ (التّاریخ الکبیر :5 /436) ’’منکر الحدیث‘‘، امام احمد رحمہ اللہ (العلل :2648) ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم :5 /374)’’متروک الحدیث، ذاہب الحدیث‘‘ اور امام نسائی رحمہ اللہ (کتاب الضعفاء والمتروکین :384)’’متروک الحدیث‘‘ کہتے ہیں ۔