کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 25
کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اب آیت ِکریمہ کے متعلق شبہات کا تفصیلی جواب ملاحظہ ہو، تاکہ قارئین کو مفید معلومات فراہم ہو سکیں ۔
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ(744ھ)فرماتے ہیں :
’’سبکی صاحب نے سورت نساء کی آیت نمبر64 ’’(اے نبی!) اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں ، تو آپ کے پاس آجائیں ۔‘‘ سے بھی استدلال کیا ہے۔ ہم اس پردو گزارشات کرتے ہیں ؛
1. اس آیت سے سبکی کا مدّعا ثابت نہیں ہوتا۔
2.یہ آیت اس کے مذہب کے خلاف ہے۔
یہ دونوں باتیں آیتِ کریمہ ، اس کی صحیح تفسیر، سیاقِ کلام ،سلف اورپیروان سلف کے فہم پر تدبر کرنے سے واضح ہو جاتی ہیں ۔ اسلاف امت ہی قرآنِ کریم اور اس کے معانی کو تمام امت سے زیادہ سمجھتے تھے۔ سلف اور (ان کے متبعین)خلف نے اس آیت سے یہ تو سمجھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے دعا کے لئے آئیں ،اس کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا، اللہ نے اس کی مذمت کی ہے، جو گناہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آتا اور اسے منافق قرار دیاہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ لَوَّوْا رُوُوسَہُمْ وَرَأَیْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَہُم مُّسْتَکْبِرُونَ﴾(المنافقون:5)’’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے استغفار کریں ،تو وہ اعراض کرتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے تکبر سے منہ پھیر لیا