کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 246
قرار دیا ہے اور حافظ ساجی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو ترک کرنے پر محدثین کا اجماع نقل کیا ہے، اس پر بہت زیادہ جرح ہے۔‘‘
(اتّحاف الخِیَرَۃ المَھَرۃ : 2/80، ح : 1075)
ثابت ہوا کہ حسن بن عمارہ ’’متروک‘‘ اور ’’مدلس‘‘ ہے۔
4.حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق(72/322)میں بھی اس کی ایک سند ذکر کی ہے۔ وہ بھی جھوٹی اور باطل ہے، اس کا بیان کرنے والا حکم بن یعلی بن عطاء رعینی ’’متروک‘‘ اور ’’ضعیف‘‘ ہے۔
5.حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے السیرۃ النبویۃ (1/349)میں ایک سند نقل کی ہے۔ وہ بھی خودساختہ ہے، اسے محمدبن سائب کلبی نے گھڑا ہے، جو باتفاقِ محدثین سخت جھوٹا اور ’’ضعیف‘‘ ہے۔
6.علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الخصائص الکبریٰ (1/255) میں ابن شاہین رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک سند لکھی ہے، وہ بھی انتہائی جھوٹی ہے، اسے علاء بن یزید نے گھڑا ہے۔ یہ منکر الحدیث ،متروک الحدیث اور احادیث گھڑنے والا ہے۔ فضل بن عیسیٰ رقاشی بھی ’’متروک‘‘ اور ’’ضعیف‘‘ ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس روایت میں وسیلے سے مراد مقام و مرتبہ اور قدر ومنزلت ہے اور ان اشعار میں روز ِقیامت شفاعت کی درخواست ہے۔
دلیل نمبر ۴۲
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :