کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 244
أَجْمَعُوْا عَلٰی ضَعْفِہٖ ۔’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین متفق ہیں ۔‘‘
(اتّحاف الخِیَرَۃ المَھَرۃ : 1/477، ح : 888)
اس میں اور بھی خرابیاں ہیں ۔
2.امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب دلائل النبوۃ (2/249)میں اس کی ایک سند ہے۔ وہ سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔
1.محمدبن تراس کوفی ’’مجہول‘‘ ہے۔
2. زیاد بن یزید بن بارویہ ابوبکر قصوی ’’مجہول‘‘ ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اسے منکر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
مُحَمَّدُ بْنُ تُرَاسٍ وَّزِیَادٌ مَّجْھُوْلَانِ، لَا تُقْبَلُ رِوَایَتُھُمَا، وَأَخَافُ أَنْ یَّکُونَ مَوْضُوعًا عَلٰی أَبِي بَکْرٍ بْنِ عَیَّاشٍ ۔
’’محمدبن تراس اور زیاد دونوں مجہول ہیں ، ان کی روایت قبول نہیں ہو سکتی، خدشہ ہے کہ اسے گھڑ کر ابوبکر بن عیاش کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔‘‘
(سِیَر أعلام النُّبَلاء : 245/1)
یہ سخت ’’ضعیف‘‘ اور ’’باطل‘‘ روایت انہی نامعلوم افراد کی کارستانی ہو سکتی ہے۔
3.ابواسحاق سبیعی ’’مدلس‘‘ ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔
3.حافظ سیوطی نے الخصائص الکبریٰ(1/255) اور امام ابونعیم اصبہانی رحمہما اللہ نے معرفۃ الصحابۃ (3552)میں مسند حسن بن سفیان کے حوالے سے اس کی ایک سند ذکر کی ہے، یہ بھی سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ حسن بن عمارہ جمہور کے ہاں ’’ضعیف‘‘ ہے۔