کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 24
اپنی قبر کو میلہ گاہ اور بت بنانے اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کرنا ثابت ہے۔‘‘
(قاعدۃ في المَحبّۃ : 2/190، جامع الرّسائل : 376,375)
نیز فرماتے ہیں :
إِنَّ طَلْبَ شَفَاعَتِہٖ وَدُعَائِہٖ وَاسْتِغْفَارِہٖ بَعْدَ مَوْتِہٖ، وَعِنْدَ قَبْرِہٖ لَیْسَ مَشْرُوعًا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَلَا ذَکَرَ ھٰذَا أَحَدٌ مِّنَ الْـأَئِمَّۃِ الْـأَرْبَعَۃِ وَأَصْحَابِھِمِ الْقُدَمَائِ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر کے پاس آ کر سفارش ،دعا اور استغفار کرنا ائمہ مسلمین میں سے کسی کے نزدیک جائز نہیں ۔ ائمہ اربعہ اور ان کے متقدمین اصحاب میں سے کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔‘‘
(مجموع الفتاوٰی : 1/241)
مفتی احمدیار خان نعیمی صاحب (1391ھ)لکھتے ہیں :
’’اس آیت میں ظلم،ظالم،زمان ومکان ،کسی قسم کی قید نہیں ۔ہرقسم کا مجرم،ہرزمانے میں ،خواہ کسی قسم کا جرم کر کے تمہارے آستانہ پر آجاوے اور ﴿جَاؤُوْکَ﴾میں یہ قید نہیں کہ مدینہ مطہرہ میں ہی آئے ،بلکہ ان کی طرف توجہ کرنا بھی ان کی بارگاہ میں حاضری ہے۔ اگر مدینہ پاک کی حاضری نصیب ہو جائے تو زہے نصیب۔۔۔‘‘(نور العرفان، ص 138)
مفتی صاحب نے کلامِ الٰہی کا ایسا مطلب ومعنی بیان کیا ہے، جو سلف صالحین