کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 237
ہے، جو فن روایت سے ادنیٰ معرفت رکھتا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ جب بغداد تشریف لائے، تو وہاں قطعاً کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی، جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو۔ یہ چیز امام شافعی رحمہ اللہ کے دور میں معروف ہی نہیں تھی، امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز ، یمن ، شام ، عراق اور مصر میں انبیائے کرام اور صحابہ وتابعین کی قبریں دیکھی تھیں ۔ یہ ہستیاں تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابوحنیفہ اور ان جیسے دوسرے علما سے افضل تھیں ۔ کیا وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سوائے امام ابوحنیفہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی؟ پھر امام ابوحنیفہ کے وہ شاگرد، جنہوں نے ان کی صحبت پائی تھی ، مثلاً ابویوسف ، محمد(بن حسن)، زفر اور حسن بن زیاد ، نیز ان کے طبقے کے دوسرے لوگ امام ابوحنیفہ یا کسی اور کی قبر پر دعا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم مکروہ ہے، کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔ اس طرح کی جھوٹی روایات وہ لوگ گھڑتے ہیں ، جو علمی اور دینی اعتبار سے تنگدست ہوتے ہیں یا پھر ایسی روایات مجہول وغیر معروف لوگوں سے منقول ہوتی ہیں ۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم، ص 165) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ(751ھ)فرماتے ہیں : ’’ہمارے استاذ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) قدس اللہ سرہ نے فرمایا : قبروں کے پاس بدعت پر مبنی امور کے کئی مراتب ہیں ۔ سب سے بڑھ کر شریعت کے منافی مرتبہ یہ ہے کہ میت سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا