کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 236
دلیل نمبر ۳۸
امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک ضعیف اور باطل روایت ہے :
إِنِّي لَـأَتَبَرَّکُ بِأَبِي حَنِیفَۃَ، وَأَجِیئُ إِلٰی قَبْرِہٖ فِي کُلِّ یَوْمٍ، یَعْنِي زَائِرًا، فَإِذَا عَرَضَتْ لِي حَاجَۃٌ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، وَجِئْتُ إِلٰی قَبْرِہٖ، وَسَأَلْتُ اللّٰہَ تَعَالٰی الْحَاجَۃَ عِنْدَہ، فَمَا تَبْعُدُ عَنِّي حَتّٰی تُقْضٰی ۔
’’میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر روز زیارت کے لیے آتاہوں ۔ جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے، تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں ، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 1/135)
تبصرہ:
جھوٹی اور باطل روایت ہے ۔
عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب ِ رجال میں ذکر نہیں ۔
اس کے باوجود محمد زاہد کوثری صاحب نے اس کی سند کو’’ صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(مقالات الکوثري : 380)
جس سند کے راوی کا کتب ِ رجال میں ذکر ہی نہ ہو، وہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)لکھتے ہیں :
’’ ایسی جھوٹی روایت ہے، جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو معلوم ہو جاتا