کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 235
اور نماز کے بدلے (اپنے نبی کی شفاعت عطا کرنے کا)حق اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ جو شخص ان دونوں چیزوں کا اہتمام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے اپناوعدہ ضرور وفا کرتا ہے۔ یوں آخر کارمعاملہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے کلمات (کے وسیلے)کا ہی ہے۔‘‘
(فتح الباري لابن رجب : 5/271)
علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ( 1326ھ )فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُرَادَ بِھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ نَوْعُ الْـأَذَانِ، لَا أَذَانُ مُوَذِّنٍ مَّخْصُوصٍ، کَمَا أَنَّ الْمُرَادَ مُطْلَقُ الصَّلَاۃِ، لَا صَلَاۃُ مُصَلٍّ مُّعَیَّنٍ، فَغَایَۃُ مَا یَثْبُتُ مِنْہُ التَّوَسُّلُ بِمُطْلَقِ الْـأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ مِنْ غَیْرِ إِضَافَتِھَا إِلٰی أَشْخَاصٍ مُعَیَّنِینَ، وَھُوَ بِمَعْزِلٍ عَنِ الْمَطْلُوبِ ۔
’’اس دعوت ِکاملہ سے مراد نوعِ اذان ہے، کسی مخصوص مؤذّن کی اذان مراد نہیں ۔ اسی طرح نماز سے یہاں مطلق نماز مرادہے ،کسی خاص نمازی کی نماز نہیں ۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ثابت ہو گا کہ معین اشخاص کی طرف نسبت کیے بغیر نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے اور یہ صورت ان کے مقصود کے خلاف ہے۔ ‘‘
(صِیانۃ الإنسان، ص 203)