کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 23
لیے ذکر کیا ہے،نہ کہ حجت اور دلیل کے لیے۔ بہت سے علما نے اس من گھڑت قصے کی قلعی کھولی ہے۔اس کی حقیقت اسی مضمون میں واضح کر دی گئی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(728ھ)فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے انہیں نفاق چھوڑ کر توبہ کی دعوت دی۔ یہ اللہ کی اپنے بندوں کے ساتھ کمال رحمت ہے کہ گناہ سے پہلے اپنی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور گناہ کے بعد معافی کا ۔ دونوں صورتوں میں اللہ اپنے بندوں کے لیے نہایت مشفق ہے۔۔۔۔ کسی انسان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پرآنا اور کہنا کہ میرے لیے استغفار کریں ، میرے لیے رب سے سوال کریں ، میرے لیے دعا کریں ، یا آپ کی غیرموجودگی میں کہنا کہ اللہ کے رسول! میرے لیے دعا کیجیے، میرے لیے مغفرت مانگیے، میرے لیے فلاں فلاں سوال کیجیے ۔یہ ایسا کام ہے، جس کی کوئی دلیل نہیں ،نہ ہی اللہ نے اس بارے میں حکم دیا ہے،قرونِ ثلاثہ کے معروف اسلاف ِامت میں سے کسی نے ایسا کام نہیں کیا،نہ وہ اس کام کو جانتے تھے، اگر یہ کام مستحب ہوتا، تو سلف اس پر کاربند ہوتے، یہ ان کے ہاں معروف ہوتا اور ان سے منقول ہوتا۔ جب اس طرح کا کام گناہوں کی معافی اور حاجت روائی کا سبب ہو، تو اسے انجام دینے اور روایت کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں ،خصوصاً ان لوگوں میں ، جو بھلائی کے کاموں میں حریص تھے۔ جب سلف سے ایسا منقول نہیں ، تو معلوم ہواکہ یہ کام نہ مستحب ہے، نہ فرض ہے۔ اس کے برعکس بحکمِ الٰہی ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا