کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 223
فَدُعَاؤُہٗ مُجَابٌ ۔ ’’انبیا، اولیا کی قبروں اور باقی تمام مقدس مقامات پر دُعا قبول ہو جاتی ہے، لیکن قبولیت دُعا کا سبب دعا کرنے والے کا خشوع وگریہ وزاری ہوتی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ مبارک مقامات، مسجد، سحری اور دیگر اوقات میں دعا کرنے والے کو بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے اور ہر پریشان حال کی دُعا قبول ہوجاتی ہے۔‘‘ (سِیَر أعلام النّبلاء : 17/77) دعا کی قبولیت کا سبب انبیا اور صلحا کی قبریں نہیں ، بلکہ وہ خشوع وخضوع ہے، جو دعا کرنے والا اختیار کرتا ہے۔ اگر اولیا کی قبروں پر دعا قبول ہوتی، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور خیر القرون کے مسلمان ایسا ضرور کرتے، اگر وہ قبر نبی پر دُعا نہیں مانگتے تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبورِ انبیا و اولیا پر دعا کے قبول ہونے پر کوئی دلیل شرعی نہیں ۔ عقائد و اعمال میں سلف صالحین پر اکتفا کرنا چاہئے، باقی جن اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ فلاں کی قبر سے تبرک وتوسل حاصل کیا جاتا ہے، تو یہ عام گمراہ یا جاہل عوام کی عادت کا ذکر ہے، جس پر کوئی دلیل نہیں ، اگر بعض متأخرین اہل علم کا ایسا نظریہ ہو بھی … تو یہ حجت نہیں ، کیونکہ یہ خیر القرون کے سلف صالحین کے مخالف ہے۔ دلیل نمبر ۳۴ حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں : وَقَفَ حَاتِمُ الْـأَصَمُّ عَلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ :