کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 220
رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْـأَمْصَارِ عَدَدٌ کَثِیْرٌ، وَعِنْدَہُمُ التَّابِعُوْنَ، وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ الْـأَئِمَّۃِ، وَمَا اسْتَغَاثُوا عِنْدَ قَبْرِ صَاحِبٍ قَطُّ، وَلَا اسْتَسْقَوْا عِنْدَ قَبْرِہٖ وَلَا بِہٖ، وَلَا اسْتَنْصَرُوْا عِنْدَہٗ وَلَا بِہٖ، وَمِنَ الْمَعْلُوْمِ أَنَّ مِثْلَ ہٰذَا مِمَّا تَتَوَفَّرَ الْہِمَمُ وَالدَّوَاعِيُّ عَلٰی نَقْلِہٖ، بَلْ عَلٰی نَقْلِ مَا ہُوَ دُوْنَہٗ عِنْدَ الْقُبُوْرِ، وَلَا یَتَحَرَّوْنَ الدُّعَائَ عِنْدَہَا أَصْلاً، بَلْ کَانُوا یَنْہَوْنَ عَنْ ذٰلِکَ مَنْ کَانَ یَفْعَلُہٗ مِنْ جُہَّالِہِمْ ۔ ’’ ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر کے متعلق جو اہل قسطنطنیہ کا عمل ذکر کیا جاتا ہے، وہ اقتدا کے لائق نہیں ، کیونکہ تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ کرام کی موجودگی میں بہت سارے شہروں میں صحابہ کرام کی قبریں موجود تھی، لیکن انہوں نے کبھی کسی صاحب قبر کے پاس فریاد رسی نہیں کی، نہ ہی ان کی قبروں کے پاس اور ان کے وسیلے بارش اور مدد طلب کی، حالانکہ واضح ہے کہ ان کے پاس ایسی چیزیں نقل کرنے کے اسباب ووسائل وافر موجود تھے، بلکہ انہوں نے تو قبروں کے پاس ان سے چھوٹے اعمال کو نقل کیا ہے،لہٰذا انہوں نے کبھی بھی قبر کے پاس دُعا کا قصد نہیں کیا، بلکہ وہ تو ان کاموں سے روکتے تھے، جو جاہل کرتے پھر رہے ہیں ۔‘‘ (اقتضاء الصّراط المستقیم : 1/339)