کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 217
فَقَالَ : اللّٰہُمَّ إِنَّ ہٰذَا حَبِیبُکَ، وَأَنَا عَبْدُکَ، وَالشَّیْطَانُ عَدُوُّکَ، فَإِنْ غَفَرْتَ لِي سُرَّ حَبِیبُکَ، وَفَازَ عَبْدُکَ، وَغَضِبَ عَدُوُّکَ، وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لِي غَضِبَ حَبِیبُکَ، وَرَضِيَ عَدُوُّکَ، وَہَلَکَ عَبْدُکَ، وَأَنْتَ أَکْرَمُ مِنْ أَنْ تُغْضِبَ حَبِیبَکَ، وَتُرْضِيَ عَدُوَّکَ، وَتُہْلِکَ عَبْدَکَ، اللّٰہُمّ! إِنَّ الْعَرَبَ الْکِرَامَ إِذَا مَاتَ فِیہِمْ سَیِّدٌ أَعْتَقُوا عَلٰی قَبْرِہٖ، وَإِنَّ ہٰذَا سَیِّدُ الْعَالَمِینَ، فَأَعْتِقْنِي عَلٰی قَبْرِہٖ، قَالَ الْـأَصْمَعِيُّ : فَقُلْتُ : یَا أَخَا الْعَرَبِ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ، وَأَعْتَقَکَ بِحُسْنِ ہٰذَا السُّوَالِ ۔
’’ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا: یا اللہ! یہ تیرا حبیب ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور شیطان تیرا دشمن ہے۔ اگر تُو مجھے معاف فرما دے، تو تیرا حبیب راضی ہو جائے گا، تیرا بندہ کامیاب ہو جائے گا اور تیرا دشمن غصے میں آئے گا۔ اگر تُو نے مجھے معاف نہ کیا، تو تیرا حبیب غصے میں آئے گا، تیرا دشمن راضی ہو جائے گا اور تیرا بندہ ہلاک ہو جائے گا۔ تُو اس بات سے بلند ہے کہ اپنے حبیب کو غصہ دلائے ، اپنے دشمن کو راضی کرے اور اپنے بندے کو ہلاک کرے۔اللہ!معزز عربوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان میں سے کوئی سردار فوت ہو جاتا ہے، تو اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کرتے ہیں ۔یہ جہانوں کے سردار ہیں ،لہٰذا ان کی قبر پر مجھے آزاد کر دے۔اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے اس بدوی سے کہا : اے