کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 21
یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں ۔‘‘(آب ِحیات، ص 40)
4.مولاناظفر احمدعثمانی دیوبندی(1394ھ)لکھتے ہیں :
ثَبَتَ أَنَّ حُکْمَ الْـآیَۃِ بَاقٍ بَعْدَ وَفَاتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ثابت ہوا کہ اس آیت ِکریمہ کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے۔‘‘(إعلاء السّنن : 10/330)
5.علامہ سبکی (683ھ)لکھتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں صریح ہے۔
(شفاء السّقام، ص 128)
6.علی بن عبد اللہ بن احمد سمہودی (911ھ) نے لکھا ہے :
أَلْعُلَمَائُ فَھِمُوا مِنَ الْـآیَۃِ الْعُمُومَ بِحَالَتَیِ الْمَوْتِ وَالْحَیَاۃِ، وَاسْتَحَبُّوا لِمَنْ أَتَی الْقَبْرَ أَنْ یَّتْلُوَھَا وَیَسْتَغْفِرَ اللّٰہَ تَعَالٰی، وَحِکَایَۃُ الْـأَعْرَابِيِّ فِي ذٰلِکَ نَقَلَھَا جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْـأَئِمَّۃِ عَنِ الْعُتْبِيِّ ۔
’’علماء نے اس آیت سے موت اور زندگی دونوں حالتوں کا عموم سمجھا ہے اور انہوں نے قبر مبارک پر جا کر اس آیت کی تلاوت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بدوی والی حکایت کو ائمہ کی ایک جماعت نے عتبی سے نقل کیا ہے۔ ‘‘
(وَفاء الوَفاء : 2/411)