کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 201
بھول جاتا تھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دُعا سکھائی:
أَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسْئَلُکَ بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّکَ، وَإِبْرَاھِیمَ خَلِیلِکَ، وَمُوسٰی نَجِیِّکَ، وَعِیسٰی رُوحِکَ وَکَلِمَتِکَ، وِبِتَوْرَاۃِ مُوسٰی، وَإِنْجِیلِ عِیسٰی، وَزَبُورِ دَاودَ، وَفُرْقَانِ مُحَمَّدٍ، وَبِکُلِّ وَحْیٍ أَوْحَیْتَہٗ، وَقَضَائٍ قَضَیْتَہٗ ۔
’’ اللہ!میں تجھ سے ان سب کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ۔ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام ،تیری ہم کلامی کا شرف حاصل کرنے والے موسیٰ علیہ السلام ، تیری روح و کلمہ عیسیٰ علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام کی تورات، عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل، داود علیہ السلام کی زبور ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن، تیری ہر وحی اور تیری تمام قضا وقدر کے وسیلے سے۔‘‘
(جامع الأصول لابن الأثیر : 4/302، ح : 2302، قاعدۃ جلیلۃ لابن تیمیۃ، ص 165-164، اللآّلي المَصنوعۃ للسّیوطي : 2/299-298)
تبصرہ:
جھوٹ ہے، جو عبد الملک بن ہارون نے گھڑا ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’کذاب‘‘ ہے۔
(تاریخ ابن مَعین : 2/376)
علامہ جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
دَجَّالٌ کَذَّابٌ ۔’’بہت بڑا دھوکے باز اور سخت جھوٹا ہے۔‘‘
(أحوال الرّجال، ص 68)