کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 20
استغفار کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں ۔ یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے منقطع نہیں ہوا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ آپ کے پاس آئیں گے، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے استغفار کریں گے، تو ہی اللہ ان کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم فرمائے گا۔‘‘ (الجوھر المنظّم، ص 12) 2.ایک کتاب میں لکھا ہے : یُبَلِّغُہٗ سَلَامَ مَنْ أَوْصَاہُ، فَیَقُولُ : السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، یَسْتَشْفِعُ بِکَ إلٰی رَبِّکَ، فَاشْفَعْ لَہٗ وَلِجَمِیعِ الْمُسْلِمِینَ ۔ ’’(قبرمبارک کی زیارت کرنے والا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجنے والے کا سلام پہنچاتے ہوئے کہے:یا رسول اللہ! فلاں بن فلاں کی طرف سے آپ پر سلام ہو، وہ اللہ کے دربار میں آپ کی سفارش کا طلب گار ہے، آپ اس کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے سفارش فرما دیجیے۔‘‘ (فتاویٰ عالمگیری : 1/282) 3.مولاناقاسم نانوتوی دیوبندی صاحب(1297ھ) لکھتے ہیں : ’’کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں ،آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو، آپ کا وجود ِ تربیت تمام امت کے لیے