کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 19
پھر اللہ سے معافی مانگیں اور آپ بھی ان کی طرف سے معافی مانگیں ، وہ اللہ کو بہت جلدتوبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے ۔‘‘ تبصرہ: اس آیت کریمہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ گناہگار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ۔ خود اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے معافی کی سفارش کریں ، تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا،ہم بتا چکے ہیں کہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا مشروع ہے۔اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ اس آیت ِکریمہ میں فوت شدگان کے وسیلہ پرکوئی دلیل نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ معاملہ آپ کی زندگی تک محدود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابی ،تابعی یا ثقہ امام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آ کر آپ سے سفارش کی درخواست نہیں کی۔ جس کا لازمی اقتضا یہ ہے کہ متاخرین کے اس قسم کے استدلالات کو ذرہ بھر اہمیت نہ دی جائے: 1.علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ(974ھ)کہتے ہیں : دَلَّتْ عَلٰی حَثِّ الْـاُمَّۃِ عَلَی الْمَجِیِٔ إِلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالْاِسْتِغْفَارِ عِنْدَہٗ، وَالِْاسْتِغْفَارِ لَھُمْ، وَھٰذَا لَا یَنْقَطِعُ بِمَوْتِہٖ، وَدَلَّتْ أَیْضًا عَلٰی تَعْلِیقِ وِجْدَانِھِمِ اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیمًا بِمَجِیئِھِمْ، وَاسْتِغْفَارِھِمْ، وَاسْتِغْفَارِ الرَّسُولِ لَھُمْ ۔ ’’یہ آیت اُمت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ کے پاس آ کر