کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 189
حَقٌّ أَوْجَبَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَلَیْسَ لِلْمَخْلُوقِ أَنْ یُّوجِبَ عَلَی الْخَالِقِ تَعَالٰی شَیْئًا ۔ ’’اگر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہو، تو اس سے مشروع وسیلہ ہی مراد ہے، اس کی دو وجوہات ہیں ؛ ایک تو اس طرح کہ اس میں اللہ تعالیٰ سے اس کے سوالیوں اور اس کی اطاعت میں چلنے والوں کے حق کے وسیلے سے سوال کا ذکر ہے۔ سوالیوں کا حق یہ ہے کہ اللہ ان کے مطالبات پورے کرے اور چلنے والوں کا حق یہ ہے کہ اللہ انہیں اجر و ثواب سے نوازے۔ یہ حق اللہ نے خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ مخلوق اپنے خالق پر کوئی چیز لازم نہیں کر سکتی۔‘‘ (قاعدۃ جلیلۃ في التوسّل والوسیلۃ، ص 215) اس ضعیف روایت میں مذکور وسیلہ اپنے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا وسیلہ ہے، جو کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بھی مشروع اور جائز ہے۔ اس میں وسیلہ بالذوات والاموات کا کوئی ذکر نہیں ۔ دلیل نمبر 20: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ِ اسد کی قبر پر یوں دعا کی : بِحَقِّ نَبِیِّکَ وَالْـأَنْبِیَائِ مِنْ قَبْلِي ۔ ’’میرے طفیل اور مجھ سے پہلے انبیا کے طفیل۔‘‘ (المُعجم الکبیر للطّبراني : 24/351، المُعجم الأوسط للطّبراني : 191، حلیۃ الأولیاء لأبي نُعَیم : 3/121)