کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 187
ناقابل اعتبار ہے۔‘‘(الضّعفاء : 34) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔(تقریب التّھذیب : 3749) لہٰذا عطیہ بن سعد عوفی کی کوئی معتبر متابعت ثابت نہیں ۔وہ اسے بیان کرنے میں منفرد ہے۔ دوسرے یہ کہ زاہد کوثری صاحب نے عطیہ کے استاذ ابوسعید کو صحابی رسول سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ صریح جہالت یا تدلیس ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عطیہ اپنے استاذ محمد بن سائب کلبی کذاب کو ابوسعید کے الفاظ سے ذکر کرتا تھا۔ تنبیہ 2 عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی(85) اور الغرائب الملتقطۃ لابن حجر (2/221) میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس میں وازع بن نافع عقیلی متروک، کذاب ووضاع ہے ۔ حافظ نووی رحمہ اللہ( 676ھ)فرماتے ہیں : ھُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ، وَأَنَّہٗ مُنْکَرُ الْحَدِیثِ ۔ ’’اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے اوریہ منکر الحدیث ہے۔ ‘‘ (الأذکار النّافعۃ : 85) علامہ محمد بن عبد الہادی سندھی حنفی رحمہ اللہ( 1138ھ)کہتے ہیں : قَوْلُہٗ : بِحَقِّ السَّائِلِینَ عَلَیْکَ، أَيْ مُتَوَسِّلًا إِلَیْکَ فِي قَضَائِ الْحَاجَۃِ وَإِمْضَائِ الْمَسْأَلَۃِ، بِمَا لِلسَّائِلِینَ عِنْدَکَ مِنَ الْفَضْلِ