کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 18
مولانا انور شاہ کشمیری صاحب (1352ھ)کہتے ہیں :
أَمَّا قَوْلُہٗ تَعَالٰی : ﴿وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ﴾، فَذٰلِکَ وَإِنِ اقْتَضَی ابْتِغَائَ وَاسِطَۃٍ، لٰکِنْ لَّا حُجَّۃَ فِیہِ عَلَی التَّوَسُّلِ الْمَعْرُوفِ بِالْـأَسْمَائِ فَقَطْ، وَذَھَبَ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ إِلٰی تَحْرِیمِہٖ، وَأَجَازَہٗ صَاحِبُ الدُّرِالْمُخْتَارِ، وَلٰکِنْ لَّمْ یَاْتِ بِنَقْلٍ عَنِ السَّلَفِ ۔
’’فرمانِ الٰہی : ﴿وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ﴾’’اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔‘‘اگرچہ کسی وسیلے کی تلاش کامتقاضی ہے، لیکن اس آیت میں ہمارے ہاں رائج ناموں کے توسل کی کوئی دلیل نہیں ۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسے حرام قرار دیتے ہیں ،جبکہ صاحب ِدُرّ مختار اسے جائز کہتے ہیں ، البتہ انہوں نے اس بارے میں سلف سے کوئی روایت بیان نہیں کی۔‘‘
(فیض الباري : 3/434)
کشمیری صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمارے ہاں رائج ناموں کے وسیلے پر کوئی دلیل نہیں ، تو بھائی ہم دلیل کے پابند ہیں ، متاخرین کے وہ فتاوی جات جو سلف کے متضاد ہیں ، کسی طور بھی قبول نہیں کئے جاسکتے۔
دلیل نمبر3:
﴿وَلَوْ أَنَّھُمْ إِذْ ظَّلَمُوآ أَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا﴾(النّساء : 64)
’’(نبی!) یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں ، تو آپ کے پاس آجائیں ،