کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 174
ساتھ نکلے۔ انہیں سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔انہوں نے پوچھا:تم کیوں نکلے ہو؟ کہاـ:میں نے اپنی قوم کی پکار سنی تھی،سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انہیں تازیانے لگائے۔ اس پر نابغہ جعدی نے کہا :
فَإِنْ تَکُ لِابْنِ عَفَّانَ أَمِینًا فَلَمْ یَبْعَثْ بِکَ الْبَرَّ الْـأَمِینَا
وَیَا قَبْرَ النَّبِيِّ وَصَاحِبَیْـہِ أَلَا یَا غَوْثَنَا لَوْ تَسْمَعُــونَا
’’اگر تو سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا امین ہے، تو انہوں نے تجھے احسان کرنے والا امین بنا کر نہیں بھیجا۔ اے نبی اور آپ کے دوصاحبوں کی قبر! اے ہمارے فریا د رس!کاش آپ ہماری فریاد سن لیں ۔‘‘
(الاستیعاب في مَعرفۃ الأصحاب لابن عبد البرّ : 3/586)
تبصرہ:
جھوٹ ہے، ہیثم بن عدی بالاتفاق ’’کذاب ومتروک الحدیث‘‘ ہے ۔
دلیل نمبر 17:
عبدالرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُہ، فَقُلْتُ : یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ : اجْتَمَعَ عَصْبُھَا مِنْ ھَاھُنَا، فَقُلْتُ : ادْعُ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَیْکَ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ فَانْبَسَطَتْ ۔
’’میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ کا پاؤں سُن ہو گیا۔