کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 17
اس بات پر خوش تھے کہ وہ انبیاء کے بیٹے ہیں ۔وہ اپنے آباء کے اعمال پر فخر کرتے تھے۔اس پر اللہ نے فرمایا:اہل ایمان !اپنے آباء و اجداد کے شرف پر فخر نہ کرو،بلکہ اعمال ہی پر نظر رکھو،اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کا قرب تلاش کرو۔‘‘(تفسیر الرّازي : 11/349)
معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی شخصیات اور اسلافِ امت کے اعمال کووسیلہ بنانے سے منع کیا گیا ہے ۔اہل کتاب کی اسی رَوَش پر انہیں تنبیہ فرمائی گئی کہ آباو اجداد پر فخر نہ کیجئے، بلکہ اپنے اعمال کو میدان عمل میں پیش کیجئے۔
دلیل نمبر2:
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیلَۃَ﴾
(الإسراء : 57)
’’مشرکین جنہیں پکارتے ہیں ،یہ تو خود اپنے ربّ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں ۔‘‘
علامہ قرطبی رحمہ اللہ(671ھ) فرماتے ہیں :
یَبْتَغُونَ یَطْلُبُونَ مِنَ اللّٰہِ الزُّلْفَۃَ وَالْقُرْبَۃَ، وَیَتَضَرَّعُونَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی فِي طَلَبِ الْجَنَّۃِ، وَہِيَ الْوَسِیلَۃُ ۔
’’اہل خیراللہ کا قرب مانگتے ہیں اور جنت کی طلب کے لیے گریہ زاری سے کام لیتے ہیں ۔یہی وسیلہ ہے۔‘‘(تفسیر القرطبي : 10/279)