کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 169
لَیْسَ فِي الِْاسْتِسْقَائِ صَلَاۃٌ مَّسْنُونَۃٌ فِي جَمَاعَۃٍ … وَرَسُولُ اللّٰہِ اسْتَسْقٰی، وَلَمْ تُرْوَ عَنْہُ الصَّلَاۃُ ۔
’’استسقا میں باجماعت نماز سنت ِنبوی نہیں ۔۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب کی تھی، لیکن آپ سے اس موقع پر نماز پڑھنا مروی نہیں۔‘‘
(الھِدایۃ، کتاب الصّلاۃ، باب الاستسقاء : 1/176)
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باجماعت نماز استسقاء کی احادیث معروف ہیں ۔ کتب حدیث میں کثرت کے ساتھ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقاء اور اس کے طریقے کے بارے میں احادیث آئی ہیں ۔ صرف صحاحِ ستہ سے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
(صحیح البخاري : 1012، صحیح مسلم : 894، سنن أبي داوٗد : 1161، سنن التّرمذي : 556، سنن النّسائي : 1505، سنن ابن ماجہ : 1267)
فوت شدگان سے توسل والے نظریے پر ایک من گھڑت روایت نے حنفی بھائیوں کو بھلا کیا فائدہ دیا؟
دلیل نمبر 13
جنگِ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کی فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ مقابلہ شدید تھا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اُکھڑنے لگے، سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے۔ انہوں نے یہ حالت دیکھی تو:
نَادٰی بِشِعَارِ ھِمْ یَوْمَئِذٍ، وَکَانَ شِعَارُھُمْ یَوْمَئِذٍ : یَا مُحَمَّدَاہْ!
’’انہوں نے مسلمانوں کا نعرہ بلند کیا، اس دن مسلمانوں کا نعرہ یَا مُحَمَّدَاہْ تھا۔‘‘
(تاریخ الطّبري : 2/181، البِدایۃ والنّھایۃ لابن کثیر : 6/324)