کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 165
’’حج کے سفر میں مجھے راستہ بھول گیا۔ میں پیدل تھا، میں کہنے لگا : اللہ کے بندو! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہااور درست راستے پر آ گیا۔‘‘ (مَسائل الإمام أحمد لابنہ عبد اللّٰہ، ص 245) علامۃ الہند نواب صدیق الحسن خان رحمہ اللہ( 1307ھ) لکھتے ہیں : قَدْ وَقَعَ لِي مِثْلُ ذٰلِکَ فِي بَعْضِ الأَْسْفَارِ وَذَھَبَ السَّیْلُ بِالدَّابَّۃِ فَقُلْتُ یَا عِبَادَ اللّٰہِ! أَعِیْنُوْنِیْ فَوَقَفْتُ فِي الْحَالِ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔ ’’اس طرح کے واقعات بعض اسفار میں خود میرے ساتھ پیش آئے، سیلاب میری سواری بہا کرلے گیا، اسی دوران میں نے پکارا: اللہ کے بندو! میری مدد کرو، تو میں سنبھل گیا، الحمدللہ۔‘‘ (رِحلۃ الصّدیق إلی البلد العَتیق ص 37) امام طبرانی رحمہ اللہ اور حافظ نووی رحمہ اللہ نے بعض اکابر شیوخ کا عباد اللہ کے بارے جو تجربہ بیان کیا ہے، ظن غالب ہے کہ وہ فرشتوں ہی کے بارے میں ہو گا۔ دلیل نمبر 11 سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو خانے میں تین مرتبہ :لَبَّیْکَ کہا اور تین مرتبہ نُصِرْتَ’’آپ کی مدد کی گئی‘‘ کہا۔میں نے عرض کی:اللہ کے رسول! میں نے آپ کو تین مرتبہ لَبَّیْکَ اور تین مرتبہ نُصِرْتَ فرماتے ہوئے