کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 164
قِطْمِیرٍ، إِنْ تَدْعُوہُمْ لَا یَسْمَعُوا دُعَائَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیرٍ﴾
(فاطر : 13۔14)
’’جنہیں مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں ، وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف برابر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں ۔ انہیں پکارو، تو وہ پکار نہیں سن سکتے اور اگر سن لیں ، تو مراد پوری نہیں کر سکتے اور روز قیامت تمہارے شرک سے لاعلمی ظاہر کریں گے، آپ کو (اللہ)خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔‘‘
(سِلسِلۃ الأحادیث الضّعیفۃ : 2/111، ح : 655)
اس حدیث میں ماتحت الاسباب مدد کا بیان ہے،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے وہاں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نیک بندوں کی اعانت پر مامور کر رکھا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت والجماعت اس پکار کو شرک کہتے ہیں جس میں کسی غائب یا فوت شدہ کو پکارا جائے یا کسی زندہ سے وہ چیز مانگی جائے جس پر وہ سرے سے قدرت ہی نہیں رکھتا۔ اسے مافوق الاسباب استعانت کہا جاتا ہے جو کہ ممنوع وحرام اور شرک ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضَلَلْتُ الطَّرِیقَ فِي حَجَّۃٍ وَّکُنْتُ مَاشِیًا، فَجَعَلْتُ أَقُولُ : یَا عِبَادَ اللّٰہِ! دُلُّونَا عَلَی الطَّرِیقِ، فَلَمْ أَزَلْ أَقُولُ ذٰلِکَ، حَتّٰی وَقَعْتُ الطَّرِیقَ ۔