کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 151
’’نابینا صحابی والی حدیث میں ان کی کوئی دلیل نہیں ،کیونکہ اس میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کیا تھا۔‘‘(قاعدۃ جلیلۃ في التوسّل والوسیلۃ، ص 64)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں یا وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی سے آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا قطعاً ثابت نہیں ۔اس طرح کے کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر کتاب و سنت سے دلیل پیش کریں ۔
فائدہ:
ایک روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو یہ دُعا سکھائی :
أَللّٰہُمَّ! فَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، وَشَفِّعْ نَبِیِّي فِي رَدِّ بَصَرِي ۔
’’اللہ!میری اور میرے نبی کی سفارش قبول فرما کر میری بصارت لوٹا دے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنْ کَانَتْ حَاجَۃً، فَافْعَلْ مِثْلَ ذٰلِکَ ۔
’’حاجت ہو، تو اسی طرح کریں ۔‘‘
(تاریخ ابن أبي خیثمۃ (قاعدۃ جلیلۃ في التوسّل والوسیلۃ لابن تیمیّۃ، ص 102)، مسند الإمام أحمد : 4/138، مختصرًا، وسندہٗ حسنٌ)
یہ روایت بالکل صریح ہے کہ نابینا صحابی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا و سفارش کا وسیلہ اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی،نہ کہ اپنی ذات کا۔ مراد یہ تھی کہ اگر کوئی اور پریشانی ہو تو میرے پاس آئیں اور دعا کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو میری دعا کا وسیلہ دیں ۔اللہ