کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 150
یہ حدیث ’’صحیح‘‘ ہے۔ امام حاکم(1/313)نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ (دلائل النبوّۃ : 6/167)نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ تبصرہ : بعض نے اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے وسیلہ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا یہ استدلال باطل ، کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی۔جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرآپ چاہیں تو میں دعا کر دیتا ہوں ، اگر دعا نہ کرائیں اور بیماری پر صبر کریں تو بہتر ہے ، لیکن صحابی مذکور نے آپ کی دعا کو ترجیح دی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا وسفارش فرما دی۔ انہیں اچھی طرح وضو کا حکم دیا ، پھر دو رکعت نماز کا کہا اور انہیں دعا کے الفاظ بھی سکھا دئیے ،انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے حق میں دعا بھی کر دی اور کہا:یااللہ!تو میرے بارے میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خود میری دعا وسفارش قبول فرما ۔ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس کے وسیلہ کا ذکر تک نہیں بلکہ آپ کی حیات ِ طیبہ میں آپ کی دعا وسفارش کا وسیلہ پیش کرنے کا ذکر ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ( 728ھ)فرماتے ہیں : حَدِیثُ الْـأَعْمٰی لَا حُجَّۃَ لَھُمْ فِیہِ، فَإِنَّہٗ صَرِیْحٌ فِي أَنَّہٗ إِنَّمَا تَوَسَّلَ بِدُعَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَفَاعَتِہٖ ۔