کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 148
لیں اور جو تقسیم ہو چکے ہیں ،ان کے لیے یہ طریقہ اختیار کریں : إِذَا مَا أَنَا صَلَّیْتُ الظُّہْرَ بِالنَّاسِ فَقُومُوا، فَقُولُوا : إِنَّا نَسْتَشْفِعُ بِرَسُولِ اللّٰہِ إِلَی الْمُسْلِمِینَ، وَبِالْمُسْلِمِینَ إلٰی رَسُولِ اللّٰہِ فِي أَبْنَائِنَا وَنِسَائِنَا، فَسَاُعْطِیکُمْ عِنْدَ ذٰلِکَ وَأَسْأَلُ لَکُمْ ۔ ’’جب میں ظہر کی نماز پڑھا دوں ، تو کھڑے ہو کر کہنا : ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت (سفارش) فرمائیں اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں سفارش کریں ،، تو میں آپ کو اس وقت عطا کردوں گا اور آپ کی سفارش کروں گا ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔اکثر صحابہ نے عرض کی:جو کچھ ہمارے پاس ہے ، وہ آپ کا ہے۔ باقی صحابہ سے آپ نے وعدہ فرما یا کہ ہر قیدی کے بدلے مالِ غنیمت سے چھ اونٹنیاں دی جائیں گی۔ اس طرح ہوازن کو تمام قیدی واپس مل گئے۔‘‘ (سیرۃ ابن ھشام : 2/306، وسندہٗ حسنٌ) تبصرہ: زندہ انسان سے سفارش کروائی جا سکتی ہے، اس سے اہل سنت والجماعت انکاری نہیں ۔اس سے فوت شدگان کی شخصیات کا توسّل کیسے ثابت ہوا؟ یہ تو ہماری دلیل ہے، جو نادان دوست خود ہی پیش کیے جاتے ہیں ۔