کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 147
آسودگی آتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے: إِنَّمَا یَنْصُرُ اللّٰہُ ھٰذِہِ الْـاُمَّۃَ بِضَعِیفِھَا، بِدَعْوَتِھِمْ وَصَلَاتِھِمْ وَإِخْلَاصِھِمْ ۔ ’’اللہ تعالیٰ اس اُمت کی مدد ان کمزور وں کی دعا ، نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے ۔‘‘ (سنن النّسائي : 3178، حلیۃ الأولیاء للأصبھاني : 5/26، وسندہٗ صحیحٌ) اس سے گزشتہ ’’ضعیف‘‘ روایت کا معنی بھی سمجھا جا سکتا ہے، اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان کا توسل ثابت کرے، تو اس کا یہ عمل دیانت ِعلمی کے خلاف ہے۔ اس سے فوت شدگان کے توسّل کا جواز ثابت کرنا شرعی نصوص کی تحریف ہے۔اس سے تو زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اہل سنت والجماعت اہل الحدیث جائز اور مشروع ہی سمجھتے ہیں ۔ دلیل نمبر 5: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جِعِرّانہ تشریف لائے۔ اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو شمار ہی نہ تھا۔ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہوکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں ۔آپ نے فرمایا : قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کر لیں ۔انہوں نے عرض کیا:ہمیں قیدی محبوب ہیں ۔ فرمایا:جو قیدی میرے ہیں یا بنو عبدالمطلب کے ہیں ،لے