کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 143
مَا یُفْعَلُ فِي الِْاسْتِسْقَائِ الْمَشْرُوعِ، مِنْ طَلَبِ السُّقْیَا وَالدُّعَائِ وَالصَّلَاۃِ وَغَیْرِہِمَا، مِمَّا ثَبَتَ بِالْـأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ، وَمَنْ یَّدَّعِي وُرُودَہٗ فَعَلَیْہِ الْإِثْبَاتُ ۔
’’حسن یا صحیح تو کُجا، کسی ضعیف حدیث میں بھی مذکور نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث سے ثابت وسیلے کے علاوہ کوئی طریقہ اختیار کیا ہو،ثابت وسیلہ کیا ہے،بارش کی دعا وغیرہ، جو کسی دوسرے وسیلے کادعویٰ کرتا ہے، تو دلیل اس کے ذمہ ہے۔‘‘
(صِیانۃ الإنسان عن وسوسۃ الشّیخ دحلان، ص 213)
تنبیہ:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے مذکورہ شعر پڑھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت ایک فیصلہ فرما رہے تھے، آپ نے یہ شعر سن کر فرمایا : اللہ کی قسم! اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے۔
(مسند الإمام أحمد : 7/1، مصنّف ابن أبي شیبۃ : 12/20، طَبَقات ابن سعد : 3/198، مسند أبي بکر للمَروزي : 1/91)
سند ضعیف ہے، علی بن زید بن جدعان جمہور کے نزدیک ’’ضعیف ومختلط‘‘ ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (807ھ) کہتے ہیں :
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُورُ ۔’’جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘
(مَجمع الزّوائد : 8/206، 209)