کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 142
سے بھی بالکل یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔اس روایت میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے اور جب تک بارش شروع نہ ہو جاتی، دعا ختم نہ فرماتے۔ بھلا اس سے ذات کا وسیلہ کیسے ثابت ہوا؟ شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ( 852ھ) لکھتے ہیں : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ أَشَارَ إِلٰی قِصَّۃٍ وَّقَعَتْ فِي الْإِسْلَامِ حَضَرَہَا ہُوَ، لَا مُجَرَّدُ مَا دَلَّ عَلَیْہِ شِعْرُ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ عُلِمَ مِنْ بَقِیَّۃِ الْـأَحَادِیثِ أَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا اسْتَسْقٰی إِجَابَۃً لِّسُوَالِ مَنْ سَأَلَہٗ فِي ذٰلِکَ ۔ ’’اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کا مشاہدہ انہوں نے دورِ اسلام میں کیا، انہوں نے صرف ابو طالب کے شعر کے مفہوم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہہ دی۔ باقی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے یہ دعا کچھ لوگوں کے مطالبے پر فرمائی تھی۔‘‘ (فتح الباري : 2/495) علامہ محمدبشیر سہسوانی رحمہ اللہ( 1326ھ)فرماتے ہیں : لَمْ یَرِدْ فِي حَدِیثٍ ضَعِیفٍ، فَضْلًا عَنِ الْحَسَنِ أَوِ الصَّحِیحِ، أَنَّ النَّاسَ طَلَبُوا السُّقْیَا مِنَ اللّٰہِ فِي حَیَاتِہٖ مُتَوَسِّلِینَ بِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّفْعَلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ