کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 141
بیواؤں کے سہارا ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے )اتر بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 1009مُعَلَّقًا، سنن ابن ماجہ : 1272، السّنن الکبرٰی للبیہقي : 3/352، تغلیق التعلیق لابن حجر : 2/389)
تبصرہ:
1.سند منکر (ضعیف) ہے۔ عمر بن حمزہ ضعیف ہے، اس کا متابع عبد الرحمن بن عبداللہ بن دینار بھی جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔
2.بشرط صحت روایت یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ مراد ہے، جو کہ مشرو ع اور جائز ہے۔
شارحِ بخاری ،علامہ ابن بطال رحمہ اللہ( 449ھ)لکھتے ہیں :
قَوْلُ عُمَرَ : أَللّٰہُمّ! إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا، وَہُوَ مَعْنٰی قَوْلِ أَبِي طَالِبٍ : وَأَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہٖ ۔
’’عمر رضی اللہ عنہ التجا کیا کرتے تھے : یا اللہ! ہم تیری طرف تیرے نبی (کی دعا) کا وسیلہ لاتے تھے۔ ابو طالب کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ وہ سفید رنگت والے، جن کے چہرے کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے۔‘‘
(شرح صحیح البخاري : 3/9)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اس حدیث کا معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔ ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں وسیلے سے مراد دعا والا وسیلہ ہے، لہٰذا اس حدیث