کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 137
ہوں ،یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی ،کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور ابن عمرکے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔‘‘
(التّلخیص الحبیر : 3/19)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ( 463ھ)فرماتے ہیں :
قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِینِيِّ : قَالَ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ : قَالَ سُفْیَانُ وَشُعْبَۃُ : لَمْ یَسْمَعِ الْـأَعْمَشُ ہٰذَا الْحَدِیثَ مِنْ إِبْرَاہِیمَ التَّیْمِيِّ، قَالَ أَبُو عُمَرَ : ہٰذِہٖ شَہَادَۃُ عَدْلَیْنِ إِمَامَیْنِ عَلَی الْـأَعْمَشِ بِالتَّدْلِیسِ، وَأَنَّہٗ کَانَ یُحَدِّثُ عَنْ مَّنْ لَقِیَہٗ بِمَا لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ، وَرُبَّمَا کَانَ بَیْنَہُمَا رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ، فَلِمِثْلِ ہٰذَا وَشِبْہِہٖ قَالَ ابْنُ مَعِینٍ وَّغَیْرُہ فِي الْـأَعْمَشِ : إِنَّہٗ مُدَلِّسٌ ۔
’’امام علی بن مدینی نے امام یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام سفیان اورامامشعبہ نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تیمی سے نہیں سنی۔ میں (ابن عبد البر)کہتا ہوں کہ اعمش کے ’’مدلس‘‘ ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات تھی۔ بسا اوقات اعمش ایسے لوگوں سے ایک، دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔ ان حقائق کی بنا پر ابن معین وغیرہ نے اعمش کو ’’مدلس‘‘ کہا ہے۔‘‘
(التّمھید لما في الموطّا من المَعاني والأسانید : 1/32)