کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 136
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البدایۃ والنھایۃ : 5/167)اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (فتح الباری : 2/495)کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا علمی تسامح ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ (۴۵۸ھ) ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
ہٰذَا الْحَدِیثُ لَمْ یَسْمَعْہُ الْـأَعْمَشُ بِالْیَقِینِ مِنْ أَبِي صَالِحٍ وَإِنَّمَا سَمِعَہُ مِنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ۔
’’یہ حدیث اعمش نے ابو صالح سے بالیقین نہیں سنی، بلکہ ایک شخص کے واسطے سے سنی ہے، جو ابو صالح سے بیان کرتا ہے۔‘‘
(السّنن الکبریٰ : 1/430)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲ھ)اعمش کی تدلیس کے بارے میں لکھتے ہیں :
عِنْدِي أَنَّ إِسْنَادَ الْحَدِیثِ الَّذِي صَحَّحَہُ ابْنُ الْقَطَّانِ مَعْلُولٌ، لِأَنَّہٗ لَا یَلْزَمُ مِنْ کَوْنِ رِجَالِہٖ ثِقَاتٍ أَنْ یَّکُونَ صَحِیحًا، لِأَنَّ الْـأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَلَمْ یَذْکُرْ سَمَاعَہٗ مِنْ عَطَائٍ، وَعَطَائٌ یَّحْتَمِلُ أَنْ یَّکُونَ ہُوَ عَطَائً الْخُرَاسَانِيَّ، فَیَکُونُ فِیہِ تَدْلِیسُ التَّسْوِیَۃِ بِإِسْقَاطِ نَافِعٍ بَیْنَ عَطَائٍ وَّابْنِ عُمَرَ ۔
’’میرے خیال میں جس حدیث کو ابن قطان نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے، وہ معلول (ضعیف)ہے،کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش ’’مدلس‘‘ ہیں اور انہوں نے عطاء سے سماع کا ذکر نہیں کیا،یہ احتمال بھی ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء ،خراسانی