کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 135
لَا یَکُونُ حُجَّۃً فِیمَا دَلَّسَ ۔ ’’مدلس کی تدلیس والی روایت حجت نہیں ہوتی۔‘‘ (الکامل لابن عدي : 1/34، وسندہٗ حسنٌ) حافظ سخاوی رحمہ اللہ( 902ھ)کہتے ہیں : مِمَّنْ ذَھَبَ إِلٰی ھٰذَا التَّفْصِیلِ الشَّافِعِيُّ وَابْنُ مَعِینٍ وَابْنُ الْمَدِینِيِّ ۔ ’’جو ائمہ اس مؤقف کے حامل ہیں ، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام علی بن مدینی رحمہم اللہ کے نام شامل ہیں ۔‘‘(فتح المُغیث : 1/182) حافظ علائی رحمہ اللہ(761ھ)لکھتے ہیں : اَلصَّحِیحُ الَّذِي عَلَیْہِ جُمْھُورُ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ وَالْـاُصُولِ ۔ ’’جمہور ائمہ حدیث وفقہ اور ائمہ اصول کا مذہب ہی درست ہے۔‘‘ (جامع التّحصیل، ص 111) حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ( (463ھ)فرماتے ہیں : قَالُوا : لَا یُقْبَلُ تَدْلِیسُ الْـأَعْمَشِ ۔ ’’محدثین کہتے ہیں کہ اعمش کی تدلیس قبول نہیں ۔‘‘(التّمھید : 1/30) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ( 855ھ)لکھتے ہیں : إِنَّ الْـأَعْمَشَ مُدَلِّسٌ، وَعَنْعَنَۃُ الْمُدَلِّسِ لَا تُعْتَبَرُ إلَّا إِذَا عُلِمَ سَمَاعُہٗ ۔ ’’سلیمان بن مہران اعمش ’’مدلس‘‘ ہیں اور ’’مدلس‘‘ کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے، جب سماع کی تصریح مل جائے۔‘‘ (عمدۃ القاري، تحت الحدیث : 219)