کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 134
گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی:یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں ، امت قحط سالی کے باعث تباہ ہو گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے خواب میں آئے، فرمایا:عمر کے پاس جاکر میرا سلام کہیں اور انہیں بتائیں کہ بارش ہو گی، عمر سے یہ بھی کہیں کہ وہ سمجھداری سے کام لیں ۔وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : یا اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر اس بار عاجز آگیا تھا ۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 6/356، تاریخ ابن أبي خیثمۃ : 2/70، الرقم : 1818، دلائل النُّبُوّۃ للبیہقي : 7/47، الاستیعاب لابن عبد البرّ : 11/1149، تاریخ ابن عساکر : 44/345، 56/489)
تبصرہ:
سند ’’ضعیف‘‘ ہے ۔
اعمش مدلّس ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی ۔
امام شافعی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ)فرماتے ہیں :
لَا نَقْبَلُ مِنْ مُّدَلِّسٍ حَدِیثًا حَتّٰی یَقُولَ فِیہِ : حَدَّثَنِي أَوْ سَمِعْتُ ۔
’’ہم مدلِّس سے اس وقت تک حدیث قبول نہیں کرتے، جب تک وہ سماع کی تصریح نہ کر دے۔‘‘
(الرّسالۃ، ص 380)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (۲۳۳ھ)فرماتے ہیں :