کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 129
واطاعت (جو کہ اس کا نیک عمل ہے)کا ہو گا۔اس توسل میں دوسری قِسم یہ ہو سکتی ہے کہ وسیلہ دینے والے کی مراد یہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کسی نیک ہستی کی قسم ڈالے یا اس کی ذات کا وسیلہ اختیار کرے۔یہی دوسری قسم ائمہ کرام کے ہاں مکروہ اور ممنوع ہے…۔‘‘
(شرح العقیدۃ الطّحاویۃ، ص 236۔238)
علامہ برکوی حنفی (981ھ)دعا میں ممنوع توسل کے بارے میں اپنا اور اپنے ائمہ کا نظریہ یوں بیان کرتے ہیں :
’’حاصل کلام یہ ہے کہ شیطان انسان کے خلاف خفیہ تدبیر کرتا ہے، وہ اسے باور کراتا ہے کہ قبر کے پاس دعا مستحسن ہے، بلکہ وہ اس کے ذہن میں ڈال دیتا ہے کہ قبر کے پاس دعا کرنا گھر، مسجد اور سحری کے اوقات میں دعا سے افضل ہے۔ انسان کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے تو شیطان اسے ایک درجہ اوپر لے جاتا ہے اور اسے یہ باور کراتا ہے کہ صاحب قبر سے دُعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کو اس کی قسم دینا بھی مستحسن ہے۔ اس کی یہ تدبیر ،پہلی سے بھی بڑھ کر گھمبیر ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کو کسی مخلوق کی قسم دی جائے یا اس سے کسی مخلوق کے واسطے مانگا جائے۔ ائمہ اسلام نے اس طریقے کو سخت بُرا جانا ہے۔ ابوالحسن قدوری ،علامہ کرخی کی کتاب کی شرح میں لکھتے ہیں :بشربن ولید کا بیان ہے کہ میں نے ابویوسف سے سنا کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر اللہ کے واسطے اللہ کو پکارے۔