کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 128
خشک سالی میں مبتلا ہوتے، تو اپنے نبی کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، تو تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا،اب ہم تیری طرف اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تجھ سے ہمارے لیے دُعا و سفارش کریں گے۔ آپ کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی قسم دی جائے یا ان کے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا جائے۔ اگر یہ طریقہ جائز ہوتا، تو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ومنزلت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی شان و منزلت سے بہت بہت زیادہ تھی۔۔۔ بسااوقات دعا کرنے والا کہتا ہے کہ یااللہ!میں تیرے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر تمام انبیاو رسل پر ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں ،اس بنا پر تو میری دُعا قبول کر لے۔۔۔تو یہ دعا اور وسیلے کا بہترین طریقہ ہے۔ رہی بات کسی شخص کے وسیلے یا اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی تو یہ تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اس کا صحیح معنیٰ نہ سمجھ سکنے کی بنا پر بعض لوگوں نے غلطی کھائی ہے۔ اگر اس سے اس شخص کی دعا و سفارش کو وسیلہ بنانا مراد ہے تو وہ ایسے نیک شخص کی زندگی ہی میں ممکن ہے۔ یا اس سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ دُعا کرنے والا شخص جس نیک ہستی کا وسیلہ دے رہا ہے، اس سے محبت کرتا ہے اور اس کا مطیع وفرمانبردار ہے، بشرطیکہ وہ نیک ہستی محبت، اطاعت وفرمانبرداری کی مستحق بھی ہو(یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ) مذکورہ صورتوں میں یہ توسل نیک شخص کی دعا وسفارش کا ہو گا یا دُعا کرنے والے کی محبت