کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 127
والی قدرت کے واسطے سے دعا کرنا بھی مکروہ قرار دیا ہے،ابویوسف نے اسے مکروہ نہیں جانا، کیونکہ انہیں اس بارے میں ایک روایت پہنچ گئی تھی۔(الدعوات الکبیر للبیھقی : 443، یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ اس میں ایک تو عمر بن ہارون باتفاقِ محدثین ’’متروک و کذاب‘‘ ہے، دوسرے عامر بن خداش کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ اس میں کمزوری ہے۔ (تاریخ الإسلام : 5/96)تیسرے اس میں ابن جریج ’’مدلس‘‘ ہیں ۔ چوتھے اس کے بارے میں حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں (نصب الرّایۃ للزّیلعي :( 4/273) بسااوقات دعاکرنے والا کہتا ہے کہ فلاں شخص کے تیرے دربار میں مقام ومرتبہ کے طفیل۔ ہم تجھے تیرے انبیا، رسل اور اولیا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔۔۔ اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص تیرے ہاں مقام و مرتبہ اور شرف رکھتا ہے،لہٰذا ہماری دُعا قبول فرما۔ یہ بھی ممنوع ہے، کیونکہ اگر وسیلے کا یہ طریقہ وہی ہوتا، جو صحابہ کرام ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں اختیار کرتے تھے، تو وہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اختیار کرتے۔ صحابہ کرام تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کی دُعا کا وسیلہ اختیار کرتے تھے، آپ سے دُعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ کی دُعا پر آمین کہتے تھے۔ استسقا(بارش طلبی کی دعا)وغیرہ میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکل کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں کہا:یااللہ!پہلے ہم جب