کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 126
مناسبت ہے ؟ دعا میں ایسا کرنابے ڈھنگا پن اور زیادتی ہے ،فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ادْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً إِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ﴾(الاعراف : 55)’’تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور مخفی انداز میں دُعا کرو۔ وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ بحق فلاں اور اس طرح کے دیگر دعائیہ الفاظ بدعت ہیں ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین عظام اورائمہ دین میں سے کسی سے بھی ایسی دعا منقول نہیں ۔ اس طرح کے الفاظ تو ان تعویذ گنڈوں میں ہوتے ہیں جنہیں جاہل قسم کے دم جھاڑ کرنے والے لوگ لکھتے ہیں ۔ دعا تو افضل عبادت ہے اور عبادات کی بنیاد سنت اور اتباعِ رسول پر ہوتی ہے ، خواہشاتِ نفس اور بدعات پر نہیں ۔ اگر ایسا کرنے والے شخص کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کے طفیل قسم ڈالی جائے تو یہ بھی ممنوع ہے،مخلوق کی قسم تو ویسے بھی جائز نہیں ، خالق پر کیسے جائز ہو گی؟رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی، اس نے شرک کا ارتکاب کیا (سنن أبی داؤد : ۳۲۵۱، سنن الترمذی : ۱۵۳۵،وقال حسن، وصححہ ابن حبان (۴۳۵۸) والحاکم (۴/۲۹۷) ووافقہ الذہبی، وسندہٗ صحیح) اسی لیے ابو حنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں (قاضی ابویوسف اور محمدبن حسن شیبانی)نے فلاں آدمی،انبیا ورسل، بیت اللہ، مشعر حرام وغیرہ کے طفیل دُعا مانگنے کو ناپسند کیا ہے۔ حتی کہ امام ابوحنیفہ اور محمد بن حسن نے تو عرش کو پیدا کرنے