کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 122
ربیع کا دانت نہیں ٹوٹنے دیں گے،خواہ اس کے لیے کتنی بھی دولت(بطور دیت)صرف کرنا پڑے۔اسی بنا پر انہوں نے قسم اٹھا لی۔ جب انصار کو معلوم ہو ا کہ ان کا ارادہ بہت پختہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں معافی ڈال دی اور انہوں نے معاف کر دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے پوری کر دیتا ہے۔معلوم ہوا کہ سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ پر اپنی مضبوط امید اور حسن ظن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھائی کہ ربیع کا دانت نہیں ٹوٹے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کے دل میں درگزر ڈال دیا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قصاص لینے کاپختہ ارادہ کر لیاتھا۔ چنانچہ انہوں نے معاف کر دیا اور دیت قبول کر لی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انس بن نضر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کی تعریف، اس بات کی گواہی تھی کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ اللہ کے مقرب بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کو پورا کرتے ہوئے ان کے لیے انصار کے دلوں کو نرم فرما دیا۔ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ یہ وہی شخص تھے، جنہوں نے فرمایا تھا کہ انہیں اُحَد کے پار سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ اور جب وہ شہید ہوئے تو ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے أَسّی سے زائد زخم تھے۔ انہیں کوئی پہچان نہ پایا اور صرف ان کی بہن ربیع نے انہیں پہچانا۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جائے۔ اس قسم کے جائز ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے کہ