کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 121
والی بات نہیں ۔ اس سے تو معلوم ہو گا کہ اس شخص کو اللہ اور اس کے رسول کی بیان کردہ خبر پر پورا یقین ہے، مثلاً اللہ کی قسم، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ضرور مخلوق کے بارے میں اپنے نبی کی سفارش قبول کرے گا اور مثلاً اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے کو معاف نہیں فرمائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انسان مضبوط امیداور اپنے رب پر حسن ظن کی بنا پر قسم اٹھائے، تو یہ بھی جائز ہے ،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ربیع بنت نضر کے واقعہ میں اس قسم پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ دیا۔ انصار اس کے فیصلے کے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص،یعنی دانت کے بدلے میں دانت توڑنے کا حکم صادر فرمایا،ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا کے گھر والوں نے دیت کی پیش کش کی لیکن انصار نے اسے مسترد کر دیا۔اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ یارسول اللہ! اللہ کی قسم، ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا مقصد قصاص کے شرعی حکم کو ٹھکرانا ہرگز نہیں تھا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انس! (انصار کے دیت پر راضی نہ ہونے کی بنا پر)اللہ تعالیٰ کی طرف سے قصاص فرض ہو گیاہے،دانت کے بدلے دانت توڑا جائے گا،اس پر سیدناانس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم، ربیع کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ (صحیح البخاري : 2703)۔مراد یہ تھی کہ ان کا پختہ عزم ہے کہ وہ