کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 120
کیونکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’تجرید القدوری‘‘ سے امام صاحب کی ایک عبارت ذکر کی ہے کہ اللہ کے ناموں کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ پر اقسام جائز نہیں ۔ یعنی انہوں نے اقسام کی نفی سے توسل کی نفی کی دلیل لی ہے۔ اگر توسل اور اقسام ایک ہی چیز ہیں تو پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات حق ہے اور اگر توسل و اقسام میں تفاوت ہے، تو پھر توسل جائز رہے گا۔ ‘‘
(فیض الباري : 2/379)
صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نیک لوگوں کی ذات یا ان کے ناموں کا وسیلہ نہیں دیا۔یہ طریقہ کار تو بعد والوں کی ایجاد ہے۔ اب رہی اقسام علی اللہ بغیراسمائہٖ کی بات کہ امام ابوحنیفہ نے اس کی نفی کی ہے اور اس نفی سے ذات کے توسل کی نفی ہوتی ہے،تو اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حق بجانب ہیں ۔البتہ اس بحث کو سمجھنا اقسام علی اللہ کے سمجھنے پر موقوف ہے۔آئیے ایک نظر اس پر بھی کرتے ہیں۔
اللہ پر قسم ڈالنا اور توسل:
علامہ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ( 1421ھ)فرماتے ہیں :
’’اقسام علی اللہ کا معنی یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے بارے میں قسم اٹھائیں کہ وہ یہ کام کرے گا یا نہیں کرے گا،مثلاً اللہ کی قسم،اللہ ضرور ایسا کرے گا،یا اللہ کی قسم، اللہ ایسا نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں قَسم کی کئی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی کسی خبر پر قسم اٹھائے جو نفی یا اثبات پر مبنی ہو۔ اس میں کوئی حرج