کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 12
عَجَبًا لِّتَرْکِ النَّاسِ ہٰذَا الْإِہْلَالَ، وَلِتَکْبِیرِہِمْ مَّا بِي، إِلَّا أَنْ یَّکُونَ التَّکْبِیرَۃُ حَسَنًا، وَلٰکِنَّ الشَّیْطَانَ یَاْتِي الْإِنْسَانَ مِنْ قِبَلِ الْإِثْمِ، فَإِذَا عُصِمَ مِنْہُ جَاء َہٗ مِنْ نَّحْوِ الْبِرِّ، لِیَدَعَ سُنَّۃً وَّلِیَبْتَدِعَ بِدْعَۃً‘ ’’تعجب ہے لوگ تلبیہ چھوڑ کر تکبیر کہنے لگے ہیں ۔تکبیر فی نفسہ اچھی چیز ہے ، لیکن شیطان انسان کے پاس گناہ کے دروازے سے آتا ہے۔ وہ اس داؤسے بچ جائے، تو نیکی کے دروازے سے آتا ہے، تاکہ انسان سنت چھوڑ کر بدعت کو دین بنا لے۔‘‘ (مسند إسحاق بن راہویہ : 482، و سندہٗ صحیحٌ) ابن جریج رحمہ اللہ ’’مدلس‘‘ ہیں ، لیکن عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت کریں ، توسماع پر محمول ہوتی ہے۔ ابن جریج رحمہ اللہ خودبیان کرتے ہیں : عَطَائٌ، فَأَنَا سَمِعْتُہٗ مِنْہُ، وَإِنْ لَّمْ أَقُلْ : سَمِعْتُ ۔ ’’میں نے عطاء سے سنا ہوتا ہے،اگرچہ میں سماع کی تصریح نہ کروں ۔‘‘ (تاریخ ابن أبي خیثمۃ :2 /241، 247، وسندہٗ صحیحٌ) لہٰذا اس روایت کی سند ’’صحیح‘‘ ہے۔ والحمدللہ! 2.وسیلہ کی یہ اقسام غلو ّ پر مبنی ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّینِ، فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّینِ ۔