کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 119
وسیلہ اختیار کیا تھا۔‘‘(قاعدۃ جلیلۃ في التوسّل والوسیلۃ، ص 64)
یہ تو تھی نابینا صحابی کی بات، جبکہ صحیح بخاری کی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل والی حدیث کے بارے میں کشمیری صاحب نے خود اقرار کیا ہے کہ اس سے ان کا موجودہ طریقہ توسل ثابت نہیں ہوتا۔ ان کی ایک مزید عبارت ملاحظہ فرمائیں :
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کے موقع پر دُعا کرتے تھے کہ یا اللہ!ہم پہلے تجھے اپنے نبی کا وسیلہ پیش کرتے تھے ۔۔۔ ان الفاظ میں اس رائج طریقہ توسل کا ذکر نہیں ، جس میں کسی غائب شخص کا وسیلہ دیا جاتا ہے جسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کا وسیلہ پکڑ رہا ہے۔اس حدیث میں تو سلف صالحین کے طریقہ توسل کا اثبات ہے۔ سلف کا طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی مقرب ِالٰہی شخص کو آگے کرتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں ۔ پھر وہ اس سفارش کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا۔اگر اس حدیث میں بعد والے لوگوں کے وضع کردہ طریقہ توسل کا ذکر ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور ان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ہی کا وسیلہ کافی ہوتا یا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی عدم موجودگی میں ان کے نام کا وسیلہ دے دیا جاتا۔ (بعض)متاخرین کے نزدیک کسی نیک بزرگ کی ذات کا وسیلہ دینا جائز ہے، لیکن حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے۔ میں اس بارے میں تردد کا شکار ہوں ،