کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 118
رہی بات جامع ترمذی والی حدیث سے کشمیری صاحب کے استنباط کی، تواس حدیث سے فوت شدہ نیک لوگوں کے ناموں کا واسطہ دینا ثابت نہیں ہوتا۔ اس حدیث کے الفاظ ہی اس کی نفی کر رہے ہیں ۔اس حدیث میں صاف ذکرہے کہ دعا کے وقت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی صحابی کے پاس موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کے لیے دُعا بھی کی تھی۔اسی لیے تو آپ نے اسے دُعا کے یہ الفاظ بھی سکھائے کہ یا اللہ!میرے حق میں اپنے نبی کی سفارش قبول فرما۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے لیے دُعا کی ہی نہیں تھی، تو ان الفاظ کا کیا معنی؟ معلوم ہوا کہ اس حدیث سے بھی زندہ نیک شخص کی دُعا کا وسیلہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ کیا اب بھی ثابت نہیں ہوا کہ اہل حدیث سلف صالحین کے عقیدہ و منہج پر قائم ہیں ؟روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقلدین اپنے لیے عبادات کے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں اور دعوی تقلیدکے باوجود ان بدعی طریقوں کے ثبوت پر قرآن و حدیث سے دلائل تراشنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سلف کے پیروکار تھے، اسی لیے انہوں نے نیک لوگوں کے ناموں کے وسیلے کو ناجائز قرار دیا۔ اس میں ان کا کیا قصور؟ انہوں نے تو لکھا ہے: حَدِیثُ الْـأَعْمٰی، لَا حُجَّۃَ لَھُمْ فِیہِ، فَإِنَّہٗ صَرِیحٌ فِي أَنَّہٗ إِنَّمَا تَوَسَّل بِدُعَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَفَاعَتِہٖ ۔ ’’نابینا صحابی والی حدیث میں ان کی کوئی دلیل نہیں ، کیونکہ یہ حدیث صاف طور پر بتا رہی ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا اور شفاعت کا