کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 117
شرح میں کشمیری صاحب لکھتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں کہ اس حدیث میں فعلی وسیلہ کا ذکرہے، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے : عباس! کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دُعا فرمائیے، تو وہ اُن کے لیے بارش کی دُعا کردیتے تھے، اس حدیث سے قولی وسیلہ ثابت نہیں ہوتا ،قولی وسیلہ مطلب نیک لوگوں کی دُعا میں شریک ہوئے بغیر صرف ان کے نام کا وسیلہ دے کر اللہ سے دُعا کرنا۔ میں کہتا ہوں کہ ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینے اعرابی صحابی کو یہ کلمات سکھائے:یااللہ!میں تیرے نبیٔ رحمت کے وسیلے سے دعا کرتاہوں … یا اللہ! اپنے نبی کی سفارش میرے حق میں قبول فرما…اس حدیث سے قولی توسل بھی ثابت ہو گیا ہے، لہٰذا حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف سے اس کا انکار تکلف ہے۔‘‘
(فیض الباري : 4/68)
کشمیری صاحب کے تضاد کا اندازہ کریں کہ وہ ایک طرف اس بات کے اقراری بھی ہیں کہ سلف صالحین سے نیک لوگوں کے ناموں کا وسیلہ ثابت نہیں ،لیکن دوسری طرف حدیث سے اس وسیلے کو ثابت بھی کرنا چاہتے ہیں ؟
کتاب و سنت کی کوئی ایسی نص نہیں جس پر سلف صالحین نے عمل نہ کیا ہو۔ اگر کسی حدیث سے دُعا میں اللہ تعالیٰ کو فوت شدہ نیک بزرگوں کے ناموں کا وسیلہ دینا ثابت ہوتا تو سلف صالحین اسی طرح بھرپور انداز سے اس پر عمل کرتے جس طرح وسیلے کی جائز صورتوں پر ان کا عمل کرنا ثابت ہے۔