کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 116
فَلَا یُضَیِّعُھُمْ بِذِکْرِ أَسْمَائِھِمْ، فَذٰلِکَ أَمْرٌ لَّا اُحِبُّ أَنْ أَقْتَحِمَ فِیہِ، فَلَا أَدَّعِي ثُبُوتَہٗ عَنِ السَّلَفِ وَلَا اُنْکِرُ ۔
’’سلف صالحین کے ناموں کا وسیلہ دینا ،جیسا کہ ہمارے زمانے میں رائج ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن نیک لوگوں کا وسیلہ ہم دے رہے ہیں،ان کو ہمارے اس عمل کا علم تک نہیں ہوتا، بلکہ ان کا زندہ ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا۔ صرف ان کے نام کا وسیلہ دیا جاتا ہے اور عقیدہ یہ رکھا جاتا ہے کہ ان نیک لوگوں کو اللہ کے ہاں ایک مقام اور قبولیت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ ان نیک لوگوں کا نام لینے پر انہیں نامراد نہیں کرے گا۔یہ ایسا معاملہ ہے کہ میں اس میں ٹانگ اڑانا پسند نہیں کرتا۔نہ میں اس وسیلے سے انکار کرتا ہوں نہ سلف سے اس کے ثابت ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں ۔‘‘
(فیض الباري : 3/424)
کشمیری صاحب کو اعتراف ہے کہ فوت شدہ بزرگوں کے وسیلے سے دُعا کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں ۔لیکن ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو وسیلہ سلف سے ثابت نہیں ، میں اس کا انکار بھی نہیں کرتا۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ سلف سے عدمِ ثبوت کا اقرار کرنے کے باوجود کشمیری صاحب متاخرین متکلمین کا طریقِ وسیلہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔حالاں کہ انہوں نے اپنی مکمل بے بسی کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ اللہ ہمیں حق قبول کرنے اور باطل ترک کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے۔
صحیح بخاری میں مذکور صحابہ کرام کی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے توسل والی حدیث کی