کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 115
انور شاہ کشمیری صاحب(1352ھ) فرماتے ہیں :
اِعْلَمْ أَنَّ التَّوَسُّلَ بَیْنَ السَّلَفِ لَمْ یَکُنْ کَمَا ھُوَ الْمَعْھُودُ بَیْنَنَا، فَإِنَّھُمْ إِذَا کَانُوا یُرِیدُونَ أَنْ یَّتَوَسَّلُوا بِأَحَدٍ، کَانُوا یَذْھَبُونَ بِمَنْ یَّتَوَسَّلُونَ بِہٖ أَیْضًا مَّعَھُمْ، لِیَدْعُوَ لَھُمْ ۔
’’آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اسلاف امت میں توسل کا وہ طریقہ موجود نہیں تھا، جو ہمارے ہاں رائج ہے۔ سلف کسی کا وسیلہ لینا چاہتے، تو اسے اپنے ساتھ لے جاتے تاکہ وہ ان کے لیے دُعا کر دے۔‘‘
(فیض الباري : 3/434)
الحمد للہ! اہل حدیث، سلف کے عقیدہ ومنہج اور مذہب پر قائم ہیں ۔ ہمارے نزدیک بھی کسی نیک شخص سے توسل کی یہی صورت درست ہے کہ اس سے دُعا کرائی جائے اور اسی وجہ سے ہم فوت شدگان سے توسل کے قائل نہیں ۔ کتاب وسنت اور اجماعِ امت اس پر شاہد ہیں ۔ مولانا کشمیری بھی اس بات کے معترف ہیں کہ سلف صرف نیک لوگوں کی دُعا کے وسیلہ کے قائل تھے۔
لیکن کشمیری صاحب ایک غلط رائے کی طرف جھکاؤ دکھا گئے ہیں ، لکھتے ہیں :
أَمَّا التَّوَسُّلُ بِأَسْمَائِ الصَّالِحِینَ کَمَا ھُوَ الْمُتَعَارَفُ فِي زَمَانِنَا، بِحَیْثُ لَا یَکُونُ لِلْمُتَوَسِّلِینَ بِھِمْ عِلْمٌ بِتَوَسُّلِنَا، بَلْ لَا تُشْتَرَطُ فِیہِ حَیَاتُھُمْ أَیْضًا، وَإِنَّمَا یُتَوَسَّلُ بِذِکْرِ أَسْمَائِھِمْ فَحَسْبٌ، زَعْمًا مِّنْھُمْ أَنَّ لَھُمْ وَجَاھَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَّقَبُولًا،