کتاب: وسیلہ کی شرعی حیثیت - صفحہ 114
اس کو کیا نام دیں کہ مفتی صاحب ایک ہی کتاب میں کسی جگہ لکھتے ہیں کہ پیغمبر کا وسیلہ نہ لینا کافروں کا کام ہے(مفتی صاحب کی گزشتہ عبارت اس بارے میں صریح ہے) اور اسی کتاب میں دوسری جگہ یہ فرما رہے ہیں کہ کافروں کا سردار فرعون نبی کے وسیلے کا قائل تھا۔ایک ہی بات درست ہو سکتی ہے۔اگر کفار نبی کے وسیلے کے منکر تھے، تو مفتی صاحب کے نزدیک فرعون کافر نہ رہا اور اگر فرعون کافر ہے، تو معلوم ہوا کہ نبی کی ذات کا وسیلہ پکڑنا کفار کا کام ہے۔
مفتی صاحب سورت آلِ عمران، آیت نمبر 193کے تحت لکھتے ہیں :
’’دوسرے یہ کہ اپنے ایمان کے وسیلہ سے دعا کرنی چاہیے۔جب اپنے ایمان کا وسیلہ بنانا درست ہے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑنا بھی بالکل صحیح ہے۔‘‘
(تفسیر نور العرفان، ص 119)
ایمان تو عمل کا نام ہے۔ اپنے اعمال کے وسیلہ سے دُعا کرنا نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں مشروع اور جائز ہے۔ ایمان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قیاس کرنا مفتی صاحب کا غلط قیاس ہے۔ عبادات اسی طرح بجالائی جائیں گی، جس طرح شریعت نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اپنی رائے اور عقل سے عبادات کے نئے نئے طریقے گھڑنا تو بدعت ہے۔ عبادت کا ایسا طریقہ جو شریعت نے نہیں بتایا،بدعت ہی کہلائے گا۔ پھر اگر ایمان کے وسیلہ کی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہوتا، تو صحابہ کرام اور ائمہ دین ضرور ایسا کرتے۔ سچا دین صحابہ کرام اور ائمہ دین ہی کا تھا۔
سلف صالحین کا توسل اور مولانا انور شاہ کاشمیریکا بیان:
سلف صالحین کے نزدیک جو وسیلہ مشروع اور جائز ہے، اس کے متعلق مولانا